_________________“ہمیشہ کی چھٹی“________________
سکول لگنے میں ابھی چالیس منٹ باقی تھے۔ وہ چپکے سے دادی اماں کے کمرے میں گیا مگر آج اندر کا منظر ہمیشہ سے مختلف تھا۔ دادی اماں اپنے بستر پر دعا مانگ رہی تھیں اور ہلکی ہلکی سسکیوں کے ساتھ رو رہی تھیں۔ وہ بار بار بے چینی سے کھڑکی سے نکلتے ہوئے سورج کو دیکھ رہی تھیں۔ عمر حیران کھڑا دادی اماں کو دیکھے جا رہا تھا وہ تھوڑا اور قریب آیا تو دادی اماں کو کسی کے آنے کا شک ہوا انھوں نے فورا دعا ختم کی اور اپنی آنسو پونجھے اور اپنا چشمہ صاف کرکے اپنی بوڑھی آنکھوں پر لگایا۔
عمر بیٹا تم ۔۔١میرے پاس آو۔۔۔۔ دادی اماں نے آٹھ سال کے عمر کو اپنی گود میں بیٹھا لیا اور اس کے ساتھ لپٹ گئی بار بار اس کا ماتھا چومنے لگی۔ بے اختیار اس کے آنسو دوبارہ نکل آئے۔
دادی اماں کیا ہوا؟ آپ رو کیوں رہی ہو؟ عمر بے اختیار پوچھ بیٹھا۔
تو میرا پیارا بیٹا ہے نا۔۔۔ تو بس ویسے ہی۔
دادی اماں مجھے آج سکول نہیں جانا۔ امی مجھے فورس کر رہی ہیں آخر وہ اپنے اصل ٹاپک کی طرف آ گیا۔ ہاں بیٹا آج میرا بھی دل نہیں مان رہا تو سکول نہ جا ، میں تیری مما سے کہہ دیتی ہوں۔
عمر کے چہرے پر تو خوشی کے پہاڑ نظر آنے لگے۔
نہیں امی جان اسے آج سکول ضرور جانا ہے اس کے پروموشنل ٹیسٹ چل رہے ہیں۔ زیبدہ شاید دورازے سے اندر آنے سے پہلے ان کی بات سن چکی تھیں۔ اور امی جان اس کی ٹیچر بتا رہی تھی کہ اس کی پرفارمنس بہت اچھی جارہی ہے آج ویسے بھی اس کا آخری ٹیسٹ ہے وہ دے لے چایے وہ کل چھٹی کرلے۔ اگر وہ آج نہ گیا تو اس کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ ابھی یہ تیسری جماعت میں ہے اسے اپنے غلط اور صیح کا پتا ہی کب ہے۔
زربخت بیگم کو ساری صورت حال کا پتا لگا تو وہ اس کی حمایت نہ کر سکی۔ اس نے عمر کا ماتھا چوما اور اس کو گود سے اتار دیا ، جا بیٹا تیرا اللہ دے حوالے۔
زبیدہ عمر کو لے کر ساتھ والے کمرے میں آگئی۔ دیکھ بیٹا تجھے پڑھ لکھ کر اپنے پاپا جیسا بڑا افسر بننا ہے۔ ماما یہ پاپا گھر تو آتے ہی نہٰیں کب سے میں کہتا ہوں کہ پا پا مجھے مل لو پر پتا نہیں یہ آپریشن کب ختم ہوگا۔ تیرے پاپا بہادر فوجی افسر ہیں نہ تو بیٹا وہ ہمارے ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ بس جلد ہی آجائیں گے۔
تیاری مکمل ہو چکی تھی۔ سکول وین آنے کا وقت ہو چکا تھا۔
موبائل فون کی بیل ملسل بجے جار ہی تھی۔ جبکہ زبیدہ عمر کی سکول کی تیاری میں مصروف تھی۔ فون کی بیل خاموش ہو چکی تھی۔ دوبارہ فون کی بیل بجی تو اس نے فورا فون ریسو کیا ۔ دوسری طرف عبداللہ تھا ۔ سلام دعا کے بعد اس نے سب سے پہلے اماں کا پوچھا اور پھر اپنے بیٹے عمر کا۔ ذبیدہ نے انھیں عمر کے پاپا کو جو سٹوری سنائی وہ واقعی حیران کن تھی کیوں کے آج تک عمر نے کبھی سکول سے چھٹی نہ کی تھی۔ بلکہ وہ تو بخار میں بھی ضد کر کے سکول چلا جاتاتھا۔ میری اس سے بات کرواو عبداللہ ساری بات سن چکا تھا۔
پاپا اسلام علیکم ، پاپا آپ کیسے ہو؟ پاپا آپ گھر کیوں نہیں آئے؟ پاپا مجھے آج سکول نہٰں جانا مما مجھے فورس کر رہی ہیں۔ عمر نے ایک ساتھ کتنے ہی سوال کر ڈالے۔
تو میرا بہت پیارا بیٹا ہے اگر پڑھے گا نہیں تو بڑا آدمی کیسے بنے گا۔ وہ کتنی ہی دیر اسے سمجھاتا رہا۔ میں بہت جلد آوں گا۔ باہر سکول کی وین آچکی تھی۔ اور بار بار سائرن بج رہا تھا۔ عمر رونے لگا ۔ ٹھیک ہے پاپا میں سکول فرور جاوں گا۔ آپ سب کہہ رہے ہو نا۔ میں کبھی چھٹی نہیں کروں گا۔ ہاں میں کبھی چھٹی نہیں کروں گا۔
زبیدہ فون ہولڈ پر رکھ کر اسے سکول وین تک چھوڑنے گئی۔ واپس آ کر اس نے بہت افسردہ لہجھے میں عبداللہ کو بتایا کی میرا اپنا آج دل نہیں مان رہا تھا عمر کو سکول بیجھنے کے لئے پر مجھے نہیں سمجھ لگی کی میں نے اس کیسے مجبورا بیجھا ہے۔ وہ بہت پریشان لگ رہی تھی۔
ماں کیسی ہے؟ عبداللہ نے موضوع بدلتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔
ٹھیک ہے، بس آج وہ کچھ افسردہ سہی ہے۔
ہاں افسردہ تو ہوں گی ۔ پتا ہے آج پاپا کی برسی ہے۔ عبداللہ کی آواز بھرا گئی۔ 43 سال ہو گئے ہیں۔ ضبط کے دو آنسو پلکوں کے بند توڑ کر باہر آ نکلے مگر اس نے اپنی آواز سے ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس کو حوصلہ دیتے ہوئے ماں سے بات کروانے کو کہا۔
ماں بیٹے سے بات کرتی ہوئی بے اختیار رونے لگی زبیدہ سے ضبط نہ ہو سکا وہ باہر ٹیرس پر آگئی۔
عبداللہ آج کھل کے رویا تھا۔ ماں کو حوصلہ دیتے بات کرتے کرتے کتنی ہی بار وہ رو چکا تھا۔ پر اس کی آواز میں لرزش نہ آئی تھی۔دورڈیوٹی پر کھڑا سپاہی اپنے افسر کو روتا دیکھ کر حیران تھا لیکن وہ اس سے کچھ پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
فون بند ہو چکا تھا۔
گھر کے سارے افراد کھل کر رو چکے تھے۔ زبیدہ باہر ٹیرس کے سامنے پڑی چیئر پر بیٹھ گئی تھی۔ ایک بے چینی کی فضا تھی ۔ دسبمر کی سردی میں بھی سورج کی ہلکی ہلکی دھوپ تیز سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھی۔ کتنا ہی وقت گزر چکا تھا
گیارہ بجنے والے تھے کہ فون کی بیل دوبارہ بجی۔
زبیدہ تیزی سے اندر فون کی طرف لپکی ، آگے سے کوئی صاحب بات کر رہے تھے۔
زبیدہ کو زمیں گھومتی ہوئی محسوس ہوئی، اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی وہ دھڑام سے زمین پر گری۔ اماں جان گھبرائی ہوئی اس کمرے میں پہنچی ۔ زبیدہ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا میری بچی کو۔۔۔۔
زبیدہ چیخے جا رہی تھی ماں میرے عمر کو کچھ نہیں ہوا۔ ماں عمر کو کچھ نہیں ہوا۔
ماں وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمر کے سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے، عمر اس دنیا میں نہیں رہا۔
ماں وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔۔۔ ماں کہہ دو نہ وہ جھوٹ بولتے ہیں زبیدہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
ساری فوجی کالونی میں کہرام مچا ہوا تھا کتنے ہی گھروں کے عمر ہمیشہ کے لئے “امر“ ہو چکے تھے۔ ہر گھر سے چیخ و پکار تھی ۔
شام تک عبداللہ بھی گھر آچکا تھا۔ فوجی یونٹ سے آرمی جوان ننھے عمر کی لاش فوجی پروٹوکول سے گھر چھوڑنے آئے تھے۔
آج عمر کی خواہش پوری ہو چکی تھی کہ پاپا آپ گھر نہیں آتے۔ ۔۔۔۔۔
دادی اماں کے لئے 43 سال پہلے16-Dec-1971 کا دن بھی آج کے دن جیسا تھا جب اس کے خاوند میجر صفدر کی شہادت کی اطلاع آئی تھی۔ ۔۔۔۔
ذبیدہ کے ذہین میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی ۔ ماں اب میں کبھی چھٹی نہیں کروں گا ۔ ماں اب میں کبھی چھٹی نہیں کروں گا۔
پر وہ تو کب کا چھٹی کر چکا تھا۔ ہمیشہ کی چھٹی۔
اللہ ہمارے ننھے شہیدوں کو جنت میں جگہ دے۔ آمین
سکول لگنے میں ابھی چالیس منٹ باقی تھے۔ وہ چپکے سے دادی اماں کے کمرے میں گیا مگر آج اندر کا منظر ہمیشہ سے مختلف تھا۔ دادی اماں اپنے بستر پر دعا مانگ رہی تھیں اور ہلکی ہلکی سسکیوں کے ساتھ رو رہی تھیں۔ وہ بار بار بے چینی سے کھڑکی سے نکلتے ہوئے سورج کو دیکھ رہی تھیں۔ عمر حیران کھڑا دادی اماں کو دیکھے جا رہا تھا وہ تھوڑا اور قریب آیا تو دادی اماں کو کسی کے آنے کا شک ہوا انھوں نے فورا دعا ختم کی اور اپنی آنسو پونجھے اور اپنا چشمہ صاف کرکے اپنی بوڑھی آنکھوں پر لگایا۔
عمر بیٹا تم ۔۔١میرے پاس آو۔۔۔۔ دادی اماں نے آٹھ سال کے عمر کو اپنی گود میں بیٹھا لیا اور اس کے ساتھ لپٹ گئی بار بار اس کا ماتھا چومنے لگی۔ بے اختیار اس کے آنسو دوبارہ نکل آئے۔
دادی اماں کیا ہوا؟ آپ رو کیوں رہی ہو؟ عمر بے اختیار پوچھ بیٹھا۔
تو میرا پیارا بیٹا ہے نا۔۔۔ تو بس ویسے ہی۔
دادی اماں مجھے آج سکول نہیں جانا۔ امی مجھے فورس کر رہی ہیں آخر وہ اپنے اصل ٹاپک کی طرف آ گیا۔ ہاں بیٹا آج میرا بھی دل نہیں مان رہا تو سکول نہ جا ، میں تیری مما سے کہہ دیتی ہوں۔
عمر کے چہرے پر تو خوشی کے پہاڑ نظر آنے لگے۔
نہیں امی جان اسے آج سکول ضرور جانا ہے اس کے پروموشنل ٹیسٹ چل رہے ہیں۔ زیبدہ شاید دورازے سے اندر آنے سے پہلے ان کی بات سن چکی تھیں۔ اور امی جان اس کی ٹیچر بتا رہی تھی کہ اس کی پرفارمنس بہت اچھی جارہی ہے آج ویسے بھی اس کا آخری ٹیسٹ ہے وہ دے لے چایے وہ کل چھٹی کرلے۔ اگر وہ آج نہ گیا تو اس کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ ابھی یہ تیسری جماعت میں ہے اسے اپنے غلط اور صیح کا پتا ہی کب ہے۔
زربخت بیگم کو ساری صورت حال کا پتا لگا تو وہ اس کی حمایت نہ کر سکی۔ اس نے عمر کا ماتھا چوما اور اس کو گود سے اتار دیا ، جا بیٹا تیرا اللہ دے حوالے۔
زبیدہ عمر کو لے کر ساتھ والے کمرے میں آگئی۔ دیکھ بیٹا تجھے پڑھ لکھ کر اپنے پاپا جیسا بڑا افسر بننا ہے۔ ماما یہ پاپا گھر تو آتے ہی نہٰیں کب سے میں کہتا ہوں کہ پا پا مجھے مل لو پر پتا نہیں یہ آپریشن کب ختم ہوگا۔ تیرے پاپا بہادر فوجی افسر ہیں نہ تو بیٹا وہ ہمارے ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ بس جلد ہی آجائیں گے۔
تیاری مکمل ہو چکی تھی۔ سکول وین آنے کا وقت ہو چکا تھا۔
موبائل فون کی بیل ملسل بجے جار ہی تھی۔ جبکہ زبیدہ عمر کی سکول کی تیاری میں مصروف تھی۔ فون کی بیل خاموش ہو چکی تھی۔ دوبارہ فون کی بیل بجی تو اس نے فورا فون ریسو کیا ۔ دوسری طرف عبداللہ تھا ۔ سلام دعا کے بعد اس نے سب سے پہلے اماں کا پوچھا اور پھر اپنے بیٹے عمر کا۔ ذبیدہ نے انھیں عمر کے پاپا کو جو سٹوری سنائی وہ واقعی حیران کن تھی کیوں کے آج تک عمر نے کبھی سکول سے چھٹی نہ کی تھی۔ بلکہ وہ تو بخار میں بھی ضد کر کے سکول چلا جاتاتھا۔ میری اس سے بات کرواو عبداللہ ساری بات سن چکا تھا۔
پاپا اسلام علیکم ، پاپا آپ کیسے ہو؟ پاپا آپ گھر کیوں نہیں آئے؟ پاپا مجھے آج سکول نہٰں جانا مما مجھے فورس کر رہی ہیں۔ عمر نے ایک ساتھ کتنے ہی سوال کر ڈالے۔
تو میرا بہت پیارا بیٹا ہے اگر پڑھے گا نہیں تو بڑا آدمی کیسے بنے گا۔ وہ کتنی ہی دیر اسے سمجھاتا رہا۔ میں بہت جلد آوں گا۔ باہر سکول کی وین آچکی تھی۔ اور بار بار سائرن بج رہا تھا۔ عمر رونے لگا ۔ ٹھیک ہے پاپا میں سکول فرور جاوں گا۔ آپ سب کہہ رہے ہو نا۔ میں کبھی چھٹی نہیں کروں گا۔ ہاں میں کبھی چھٹی نہیں کروں گا۔
زبیدہ فون ہولڈ پر رکھ کر اسے سکول وین تک چھوڑنے گئی۔ واپس آ کر اس نے بہت افسردہ لہجھے میں عبداللہ کو بتایا کی میرا اپنا آج دل نہیں مان رہا تھا عمر کو سکول بیجھنے کے لئے پر مجھے نہیں سمجھ لگی کی میں نے اس کیسے مجبورا بیجھا ہے۔ وہ بہت پریشان لگ رہی تھی۔
ماں کیسی ہے؟ عبداللہ نے موضوع بدلتے ہوئے سرد لہجے میں کہا۔
ٹھیک ہے، بس آج وہ کچھ افسردہ سہی ہے۔
ہاں افسردہ تو ہوں گی ۔ پتا ہے آج پاپا کی برسی ہے۔ عبداللہ کی آواز بھرا گئی۔ 43 سال ہو گئے ہیں۔ ضبط کے دو آنسو پلکوں کے بند توڑ کر باہر آ نکلے مگر اس نے اپنی آواز سے ظاہر نہ ہونے دیا۔ اس کو حوصلہ دیتے ہوئے ماں سے بات کروانے کو کہا۔
ماں بیٹے سے بات کرتی ہوئی بے اختیار رونے لگی زبیدہ سے ضبط نہ ہو سکا وہ باہر ٹیرس پر آگئی۔
عبداللہ آج کھل کے رویا تھا۔ ماں کو حوصلہ دیتے بات کرتے کرتے کتنی ہی بار وہ رو چکا تھا۔ پر اس کی آواز میں لرزش نہ آئی تھی۔دورڈیوٹی پر کھڑا سپاہی اپنے افسر کو روتا دیکھ کر حیران تھا لیکن وہ اس سے کچھ پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
فون بند ہو چکا تھا۔
گھر کے سارے افراد کھل کر رو چکے تھے۔ زبیدہ باہر ٹیرس کے سامنے پڑی چیئر پر بیٹھ گئی تھی۔ ایک بے چینی کی فضا تھی ۔ دسبمر کی سردی میں بھی سورج کی ہلکی ہلکی دھوپ تیز سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھی۔ کتنا ہی وقت گزر چکا تھا
گیارہ بجنے والے تھے کہ فون کی بیل دوبارہ بجی۔
زبیدہ تیزی سے اندر فون کی طرف لپکی ، آگے سے کوئی صاحب بات کر رہے تھے۔
زبیدہ کو زمیں گھومتی ہوئی محسوس ہوئی، اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی وہ دھڑام سے زمین پر گری۔ اماں جان گھبرائی ہوئی اس کمرے میں پہنچی ۔ زبیدہ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا میری بچی کو۔۔۔۔
زبیدہ چیخے جا رہی تھی ماں میرے عمر کو کچھ نہیں ہوا۔ ماں عمر کو کچھ نہیں ہوا۔
ماں وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمر کے سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے، عمر اس دنیا میں نہیں رہا۔
ماں وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔۔۔ ماں کہہ دو نہ وہ جھوٹ بولتے ہیں زبیدہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
ساری فوجی کالونی میں کہرام مچا ہوا تھا کتنے ہی گھروں کے عمر ہمیشہ کے لئے “امر“ ہو چکے تھے۔ ہر گھر سے چیخ و پکار تھی ۔
شام تک عبداللہ بھی گھر آچکا تھا۔ فوجی یونٹ سے آرمی جوان ننھے عمر کی لاش فوجی پروٹوکول سے گھر چھوڑنے آئے تھے۔
آج عمر کی خواہش پوری ہو چکی تھی کہ پاپا آپ گھر نہیں آتے۔ ۔۔۔۔۔
دادی اماں کے لئے 43 سال پہلے16-Dec-1971 کا دن بھی آج کے دن جیسا تھا جب اس کے خاوند میجر صفدر کی شہادت کی اطلاع آئی تھی۔ ۔۔۔۔
ذبیدہ کے ذہین میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی ۔ ماں اب میں کبھی چھٹی نہیں کروں گا ۔ ماں اب میں کبھی چھٹی نہیں کروں گا۔
پر وہ تو کب کا چھٹی کر چکا تھا۔ ہمیشہ کی چھٹی۔
اللہ ہمارے ننھے شہیدوں کو جنت میں جگہ دے۔ آمین
No comments:
Post a Comment